سوات کا پاکستان سے الحاق ایک تاریخی جائزہ
admin نے Friday، 10 October 2025 کو شائع کیا.

تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر میں درجنوں نیم خودمختار ریاستیں موجود تھیں جنہیں فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہیں۔ انہی ریاستوں میں ریاستِ سوات بھی شامل تھی، جس نے بعد ازاں اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔

قدیم سوات — گندھارا سے غزنوی دور تک

سوات کا قدیم نام ’اُدیانہ‘ تھا، جس کا مطلب باغ ہے۔ گندھارا تہذیب، بدھ مت، سکندر اعظم کی مہمات اور راجہ چندر، راجہ گیرا اور دیگر حکمرانوں نے اسے ایک تاریخی خطے کے طور پر نمایاں رکھا۔
1100 ہجری کے قریب محمود غزنوی نے یہاں بدھ حکمران راجہ گیرا کو شکست دے کر اسلام متعارف کرایا۔ اسی زمانے کی محمود غزنوی مسجد آج بھی اوڈیگرام میں دریافت شدہ آثار کے طور پر موجود ہے۔

بعد ازاں یوسفزئی اور سواتی قبائل کے درمیان طویل جھڑپیں ہوئیں اور کوئی مستقل حکمرانی قائم نہ ہو سکی۔ 18ویں اور 19ویں صدی تک سوات کا معاشرہ قبائلی اور غیرمرکزی رہا۔

سیدو بابا اور ریاستِ سوات کی بنیاد

جدید ریاست سوات کی بنیاد حضرت میاں گل عبدالغفور عرف سیدو بابا (1794–1877) نے رکھی۔ وہ مذہبی رہنما، قبائلی ثالث اور اصلاح پسند شخصیت تھے۔ ان کی روحانی مقبولیت نے ایک انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔
1849 میں جرگے کے ذریعے سید اکبر شاہ کو حکمران مقرر کیا گیا، تاہم چند برس بعد یہ نظام کمزور پڑ گیا۔ سیدو بابا کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے تعلیم، رفاہِ عامہ اور شرعی اصولوں پر مبنی انتظامی ڈھانچہ قائم رکھا۔

میاں گل عبدالودود — جدید ریاست کے معمار

سیدو بابا کے پوتے میاں گل عبدالودود (1877–1971) نے 1917 میں عملی اقتدار سنبھالا۔ عوام نے انہیں “بادشاہ صاحب” کا لقب دیا۔
انہوں نے عدلیہ، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور امن و انصاف کے ایسے ماڈل قائم کیے جنہیں بعد میں ماہرین نے “منظم مقامی ریاست” کی حیثیت سے تسلیم کیا۔

1926 میں ان کے بیٹے میاں گل جہانزیب کو ولی عہد مقرر کیا گیا، جو بعد میں ریاستی معاملات میں شریک ہوئے۔

پاکستان سے الحاق — رضاکارانہ فیصلہ

1947 میں جب برصیر تقسیم ہوا تو ریاست سوات نے الحاق کا اختیار حاصل کیا۔ میاں گل عبدالودود نے حالات کا جائزہ لے کر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔
یہ فیصلہ کسی دباؤ یا فوجی کارروائی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک دور اندیش سیاسی حکمتِ عملی تھی۔ الحاق کے باوجود سوات نے اندرونی خودمختاری برقرار رکھی اور ریاستی دولت، نظم و نسق اور تعلیمی نظام بدستور قائم رہا۔

1949 میں ان کے بیٹے میاں گل جہانزیب کو پاکستان نے باضابطہ طور پر ’والی سوات‘ تسلیم کیا۔ حکومتِ پاکستان نے بعد میں انہیں “ہلال پاکستان” اور “ہلال قائداعظم” جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا۔

مکمل انضمام — 1969

مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں سوات سمیت دیگر خودمختار ریاستوں کو مکمل طور پر پاکستان کے صوبائی نظام میں شامل کردیا۔ یوں سوات کی الگ ریاستی حیثیت ختم ہوگئی۔

سوات کا پاکستان کے لیے کردار

سوات نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ الحاق میں پیش قدمی کی بلکہ اس کی ترقی میں بھی حصہ ڈالا۔
تقسیم کے فوراً بعد والی سوات نے مہاجرین کے لیے ذاتی حیثیت میں تقریباً تین لاکھ روپے چندہ دیا، جو اس دور میں بہت بڑی رقم تھی۔
ریاست کے قائم کردہ تعلیمی ادارے، ہسپتال اور رفاہی منشور آج بھی سوات کی شناخت کا حصہ ہیں۔

مثالی فلاحی نظام

الحاق سے قبل سوات ایک عملی فلاحی ریاست تھی:

  1. علاج، ادویات اور کھانا مفت
  2. تعلیم بلا معاوضہ
  3. وکالت کی فیس نہیں
  4. جرگہ اور عدالتی فیصلے چند دنوں میں
  5. امن و امان مضبوط اور جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر

کئی بزرگ آج بھی والی سوات کے دور کو سادہ، پرامن اور مثالی نظم و نسق کی مثال کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

شدت پسندی کا دور اور بعد کی تعمیر نو

2007 سے 2010 تک سوات میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لہر اٹھی۔ فضل اللہ کے ریڈیو پیغام، طالبان کی کارروائیاں اور ریاستی عملداری پر حملوں نے امن کو شدید متاثر کیا۔
فوجی آپریشن کے ذریعے سوات کو کلیئر کیا گیا مگر اس دوران شاہی خاندان سمیت عام شہریوں کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

آج سوات میں بحالی اور ترقی کا عمل جاری ہے۔ سیاحت، تعمیرات، تعلیم اور کاروبار دوبارہ فروغ پارہے ہیں، اگرچہ

مبصرین کے مطابق شدت پسندی نہ ہوتی تو یہ ترقی کہیں زیادہ تیز ہوتی۔

سوات ریاست کا تاریخی ٹائم لائن

آپ کی درخواست پر، میں نے سوات کی تاریخ، پاکستان سے الحاق اور اہم واقعات کی ایک جامع ٹائم لائن تیار کی ہے۔ یہ معلومات معتبر ذرائع جیسے ویکی پیڈیا، ووکل میڈیا، ڈان نیوز اور تاریخی دستاویزات سے حاصل کی گئی ہیں۔ ٹائم لائن کو جدول کی شکل میں پیش کر رہا ہوں تاکہ یہ واضح اور منظم ہو۔

Winning Over The Princely States - Sp Supplements - DAWN.COM

dawn.com

wāli سوات میاں گل عبدالودود کا 1947 میں الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession) پر دستخط کرنا۔ بائیں طرف ان کے بیٹے میاں گل جہانزیب اور دیگر موجود ہیں۔

یہ ٹائم لائن سوات کی قدیم تاریخ (گندھارا، بدھ مت، غزنوی حملہ) سے لے کر الحاق اور انضمام تک کو احاطہ کرتی ہے۔ الحاق رضاکارانہ تھا اور دباؤ کے بغیر ہوا، جبکہ 1969 کا انضمام مارشل لا کے تحت ہوا۔ سوات نے الحاق کے بعد مہاجرین کے لیے مالی امداد بھی دی

سال/تاریخاہم واقعہ
1794–1876/77سیدو بابا (اخوند عبدالغفور) کی پیدائش اور وفات۔ وہ سوات ریاست کے بانی سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے قبائلی جرگے کے ذریعے شرعی نظام متعارف کرایا۔
1849سیدو بابا کی قیادت میں جرگے نے سید اکبر شاہ کو پہلا حکمران (امیر) مقرر کیا، جس سے سوات ریاست کی رسمی بنیاد پڑی۔
1857سید اکبر شاہ کی موت؛ 1857 کی جنگِ آزادی کے اثرات سے نظام کمزور پڑا۔
1878–1915سیدو بابا کی وفات کے بعد انتشار کا دور؛ کوئی مرکزی حکمرانی نہ رہی۔
1915–1917سید عبدالجبار شاہ کو جرگے نے حکمران بنایا، لیکن جلد ہی میاں گل عبدالودود نے اقتدار سنبھالا۔
1917/1918میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) نے ریاست کو متحد کیا؛ جدید سوات ریاست کی بنیاد۔
1926برطانوی حکومت نے سوات کو نوابی ریاست تسلیم کیا اور میاں گل عبدالودود کو “والی” کا خطاب دیا۔
3 نومبر 1947میاں گل عبدالودود نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا دستاویز (Instrument of Accession) پر دستخط کیا؛ رضاکارانہ فیصلہ۔
24 نومبر 1947قائداعظم محمد علی جناح نے الحاق قبول کیا۔ سوات نے پاکستان کو پہلا Hawker Fury جنگی طیارہ بھی تحفہ دیا۔
12 دسمبر 1949میاں گل عبدالودود نے استعفیٰ دیا؛ بیٹے میاں گل جہانزیب والی بنے، جو 1969 تک رہے۔
1952جہانزیب کالج کی بنیاد؛ تعلیم اور ترقی کا سنہری دور شروع۔
28 جولائی 1969جنرل یحییٰ خان نے سوات، دیر اور چترال سمیت ریاستوں کا مکمل انضمام اعلان کیا؛ سوات خیبر پختونخوا میں ضلع بن گیا۔
2007–2010شدت پسندی کا دور: طالبان کا قبضہ، فوجی آپریشن رحِ حق اور راہِ راست؛ لاکھوں مہاجرین اور تباہی۔

نتیجہ

سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ایک ذمہ دارانہ اور باوقار فیصلہ تھا، جو سیاسی شعور اور ریاستی خیرسگالی پر مبنی تھا۔

ریاستی نظام کے خاتمے کے باوجود سوات نے پاکستان کو تعلیم، امن، ثقافت، Political affiliationریخ اور خدمت کی وہ بنیادیں فراہم کیں، جو آج بھی ایک مثال سمجھی جاتی ہیں۔


تحریر: امجد ہاشمی
لکھاری/رپورٹر


ٹیگز:-
فکری خودکلامی
admin نے Friday، 10 October 2025 کو شائع کیا.

سفرِ درون کبھی کبھی زندگی کے ہنگاموں سے دور، جب میں کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھتا ہوںجہاں ہوا کی سانس بھی خاموش ہو جاتی ہے—تو اپنے اندر ایک اور دنیا جاگتی محسوس ہوتی ہے۔ وہاں، آسمان کی نیلاہٹ اور زمین کی وسعت کے درمیان، میں اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوں۔ وہ باتیں جو […]

مکمل تحریر پڑھیے »


ٹیگز:-
زوال اور اُمید کے درمیان: ایک شکستہ آئینے کا احوال
admin نے Friday، 10 October 2025 کو شائع کیا.

پاپا، ہم ایسے کیوں ہو گئے بچوں کی معصوم آنکھوں میں وہ سوال دیکھا جو کسی عدالت سے کم نہیں تھا ” میں کچھ کہنا چاہتا تھا، کوئی جواب گھڑنا چاہتا تھا، مگر میری زبان نے جواب دے دیا آنکھوں میں آنسو سجا، مگر وہ بھی شرم کے مارے بہنے سے پہلے ہی جم گیا۔ […]

مکمل تحریر پڑھیے »


ٹیگز:-
شعور، تحقیق اور سچائی کا سفر
admin نے Sunday، 17 August 2025 کو شائع کیا.

میرا نظریۂ فکر محض خیالات کا ایک سلسلہ نہیں، بلکہ برسوں کی محنت، تحقیق اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ زندگی کے مختلف موڑوں پر گزرنے والے لمحوں نے مجھے یہ سکھایا کہ ہر بات کو باریک بینی سے پرکھنا، حالات و واقعات کے پس منظر کو سمجھنا، اور موقع و محل کی درست پہچان رکھنا […]

مکمل تحریر پڑھیے »


ٹیگز:-
اینٹ کا جواب پتھر سے پاکستان کا وقار اور سعد رفیق کی للکار
admin نے Sunday، 10 August 2025 کو شائع کیا.

کبھی کبھی وقت خود کو دہراتا ہے۔ تاریخ اپنے سینے میں ایسے لمحات رقم کرتی ہے جو قوموں کی روح کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ بھارت کے حالیہ جنگی جنون اور پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی نے جو شعلہ بھڑکایا، وہ محض سرحدوں تک محدود نہ رہا، بلکہ ہر پاکستانی کے دل میں حب الوطنی کی […]

مکمل تحریر پڑھیے »


13 جولائی 2018 – تاریخ کا وہ دن جو آنکھوں سے نہیں، دل سے یاد رکھا ہوا ہے اور رکھاجائے گا
admin نے Saturday، 9 August 2025 کو شائع کیا.
میں مخدوم امجد ہاشمی ہوں                                                                                                                                 
admin نے Friday، 8 August 2025 کو شائع کیا.