سوات کا پاکستان سے الحاق ایک تاریخی جائزہ
تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر میں درجنوں نیم خودمختار ریاستیں موجود تھیں جنہیں فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کریں یا آزاد رہیں۔ انہی ریاستوں میں ریاستِ سوات بھی شامل تھی، جس نے بعد ازاں اپنی مرضی سے پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔
قدیم سوات — گندھارا سے غزنوی دور تک
سوات کا قدیم نام ’اُدیانہ‘ تھا، جس کا مطلب باغ ہے۔ گندھارا تہذیب، بدھ مت، سکندر اعظم کی مہمات اور راجہ چندر، راجہ گیرا اور دیگر حکمرانوں نے اسے ایک تاریخی خطے کے طور پر نمایاں رکھا۔
1100 ہجری کے قریب محمود غزنوی نے یہاں بدھ حکمران راجہ گیرا کو شکست دے کر اسلام متعارف کرایا۔ اسی زمانے کی محمود غزنوی مسجد آج بھی اوڈیگرام میں دریافت شدہ آثار کے طور پر موجود ہے۔
بعد ازاں یوسفزئی اور سواتی قبائل کے درمیان طویل جھڑپیں ہوئیں اور کوئی مستقل حکمرانی قائم نہ ہو سکی۔ 18ویں اور 19ویں صدی تک سوات کا معاشرہ قبائلی اور غیرمرکزی رہا۔
سیدو بابا اور ریاستِ سوات کی بنیاد
جدید ریاست سوات کی بنیاد حضرت میاں گل عبدالغفور عرف سیدو بابا (1794–1877) نے رکھی۔ وہ مذہبی رہنما، قبائلی ثالث اور اصلاح پسند شخصیت تھے۔ ان کی روحانی مقبولیت نے ایک انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔
1849 میں جرگے کے ذریعے سید اکبر شاہ کو حکمران مقرر کیا گیا، تاہم چند برس بعد یہ نظام کمزور پڑ گیا۔ سیدو بابا کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے تعلیم، رفاہِ عامہ اور شرعی اصولوں پر مبنی انتظامی ڈھانچہ قائم رکھا۔
میاں گل عبدالودود — جدید ریاست کے معمار
سیدو بابا کے پوتے میاں گل عبدالودود (1877–1971) نے 1917 میں عملی اقتدار سنبھالا۔ عوام نے انہیں “بادشاہ صاحب” کا لقب دیا۔
انہوں نے عدلیہ، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور امن و انصاف کے ایسے ماڈل قائم کیے جنہیں بعد میں ماہرین نے “منظم مقامی ریاست” کی حیثیت سے تسلیم کیا۔
1926 میں ان کے بیٹے میاں گل جہانزیب کو ولی عہد مقرر کیا گیا، جو بعد میں ریاستی معاملات میں شریک ہوئے۔
پاکستان سے الحاق — رضاکارانہ فیصلہ
1947 میں جب برصیر تقسیم ہوا تو ریاست سوات نے الحاق کا اختیار حاصل کیا۔ میاں گل عبدالودود نے حالات کا جائزہ لے کر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔
یہ فیصلہ کسی دباؤ یا فوجی کارروائی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک دور اندیش سیاسی حکمتِ عملی تھی۔ الحاق کے باوجود سوات نے اندرونی خودمختاری برقرار رکھی اور ریاستی دولت، نظم و نسق اور تعلیمی نظام بدستور قائم رہا۔
1949 میں ان کے بیٹے میاں گل جہانزیب کو پاکستان نے باضابطہ طور پر ’والی سوات‘ تسلیم کیا۔ حکومتِ پاکستان نے بعد میں انہیں “ہلال پاکستان” اور “ہلال قائداعظم” جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا۔
مکمل انضمام — 1969
مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں سوات سمیت دیگر خودمختار ریاستوں کو مکمل طور پر پاکستان کے صوبائی نظام میں شامل کردیا۔ یوں سوات کی الگ ریاستی حیثیت ختم ہوگئی۔
سوات کا پاکستان کے لیے کردار
سوات نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ الحاق میں پیش قدمی کی بلکہ اس کی ترقی میں بھی حصہ ڈالا۔
تقسیم کے فوراً بعد والی سوات نے مہاجرین کے لیے ذاتی حیثیت میں تقریباً تین لاکھ روپے چندہ دیا، جو اس دور میں بہت بڑی رقم تھی۔
ریاست کے قائم کردہ تعلیمی ادارے، ہسپتال اور رفاہی منشور آج بھی سوات کی شناخت کا حصہ ہیں۔
مثالی فلاحی نظام
الحاق سے قبل سوات ایک عملی فلاحی ریاست تھی:
- علاج، ادویات اور کھانا مفت
- تعلیم بلا معاوضہ
- وکالت کی فیس نہیں
- جرگہ اور عدالتی فیصلے چند دنوں میں
- امن و امان مضبوط اور جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر
کئی بزرگ آج بھی والی سوات کے دور کو سادہ، پرامن اور مثالی نظم و نسق کی مثال کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
شدت پسندی کا دور اور بعد کی تعمیر نو
2007 سے 2010 تک سوات میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لہر اٹھی۔ فضل اللہ کے ریڈیو پیغام، طالبان کی کارروائیاں اور ریاستی عملداری پر حملوں نے امن کو شدید متاثر کیا۔
فوجی آپریشن کے ذریعے سوات کو کلیئر کیا گیا مگر اس دوران شاہی خاندان سمیت عام شہریوں کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
آج سوات میں بحالی اور ترقی کا عمل جاری ہے۔ سیاحت، تعمیرات، تعلیم اور کاروبار دوبارہ فروغ پارہے ہیں، اگرچہ
مبصرین کے مطابق شدت پسندی نہ ہوتی تو یہ ترقی کہیں زیادہ تیز ہوتی۔
سوات ریاست کا تاریخی ٹائم لائن
آپ کی درخواست پر، میں نے سوات کی تاریخ، پاکستان سے الحاق اور اہم واقعات کی ایک جامع ٹائم لائن تیار کی ہے۔ یہ معلومات معتبر ذرائع جیسے ویکی پیڈیا، ووکل میڈیا، ڈان نیوز اور تاریخی دستاویزات سے حاصل کی گئی ہیں۔ ٹائم لائن کو جدول کی شکل میں پیش کر رہا ہوں تاکہ یہ واضح اور منظم ہو۔

wāli سوات میاں گل عبدالودود کا 1947 میں الحاق کی دستاویز (Instrument of Accession) پر دستخط کرنا۔ بائیں طرف ان کے بیٹے میاں گل جہانزیب اور دیگر موجود ہیں۔
یہ ٹائم لائن سوات کی قدیم تاریخ (گندھارا، بدھ مت، غزنوی حملہ) سے لے کر الحاق اور انضمام تک کو احاطہ کرتی ہے۔ الحاق رضاکارانہ تھا اور دباؤ کے بغیر ہوا، جبکہ 1969 کا انضمام مارشل لا کے تحت ہوا۔ سوات نے الحاق کے بعد مہاجرین کے لیے مالی امداد بھی دی
| سال/تاریخ | اہم واقعہ |
|---|---|
| 1794–1876/77 | سیدو بابا (اخوند عبدالغفور) کی پیدائش اور وفات۔ وہ سوات ریاست کے بانی سمجھے جاتے ہیں، جنہوں نے قبائلی جرگے کے ذریعے شرعی نظام متعارف کرایا۔ |
| 1849 | سیدو بابا کی قیادت میں جرگے نے سید اکبر شاہ کو پہلا حکمران (امیر) مقرر کیا، جس سے سوات ریاست کی رسمی بنیاد پڑی۔ |
| 1857 | سید اکبر شاہ کی موت؛ 1857 کی جنگِ آزادی کے اثرات سے نظام کمزور پڑا۔ |
| 1878–1915 | سیدو بابا کی وفات کے بعد انتشار کا دور؛ کوئی مرکزی حکمرانی نہ رہی۔ |
| 1915–1917 | سید عبدالجبار شاہ کو جرگے نے حکمران بنایا، لیکن جلد ہی میاں گل عبدالودود نے اقتدار سنبھالا۔ |
| 1917/1918 | میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) نے ریاست کو متحد کیا؛ جدید سوات ریاست کی بنیاد۔ |
| 1926 | برطانوی حکومت نے سوات کو نوابی ریاست تسلیم کیا اور میاں گل عبدالودود کو “والی” کا خطاب دیا۔ |
| 3 نومبر 1947 | میاں گل عبدالودود نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا دستاویز (Instrument of Accession) پر دستخط کیا؛ رضاکارانہ فیصلہ۔ |
| 24 نومبر 1947 | قائداعظم محمد علی جناح نے الحاق قبول کیا۔ سوات نے پاکستان کو پہلا Hawker Fury جنگی طیارہ بھی تحفہ دیا۔ |
| 12 دسمبر 1949 | میاں گل عبدالودود نے استعفیٰ دیا؛ بیٹے میاں گل جہانزیب والی بنے، جو 1969 تک رہے۔ |
| 1952 | جہانزیب کالج کی بنیاد؛ تعلیم اور ترقی کا سنہری دور شروع۔ |
| 28 جولائی 1969 | جنرل یحییٰ خان نے سوات، دیر اور چترال سمیت ریاستوں کا مکمل انضمام اعلان کیا؛ سوات خیبر پختونخوا میں ضلع بن گیا۔ |
| 2007–2010 | شدت پسندی کا دور: طالبان کا قبضہ، فوجی آپریشن رحِ حق اور راہِ راست؛ لاکھوں مہاجرین اور تباہی۔ |
نتیجہ
سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق ایک ذمہ دارانہ اور باوقار فیصلہ تھا، جو سیاسی شعور اور ریاستی خیرسگالی پر مبنی تھا۔
ریاستی نظام کے خاتمے کے باوجود سوات نے پاکستان کو تعلیم، امن، ثقافت، Political affiliationریخ اور خدمت کی وہ بنیادیں فراہم کیں، جو آج بھی ایک مثال سمجھی جاتی ہیں۔
تحریر: امجد ہاشمی
لکھاری/رپورٹر
- فیس بک
- ٹویٹر
- گوگل بز
- ٹیکنوراٹی
- ڈگ
- ڈیلیشیئس
